حصول تعلیم کے مقدماتی اصول
تحصیل علم کےپانچ مقدماتی اُصول
میر شجاعت علی
انسان کی زندگی میں اُصول و آئین کا ہونا اس قدر ضرروی ہےجس
طرح انسان کو جینے کے لیے ہوا،غذا اور پانی کا ہونا ناگریزہے۔جس طرح ان کے بغیر
انسانی زیست کا تصور محال ہے اسی طرح بدون
اُصول امورِ حیات کاصحیح طور پرچلنا بھی ممکن نہیں۔ حیات کے ہر شعبہ میں
اُصول و ضوابط کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ ہمارے تمام کام اُصول و ضوابط کے ماتحت ہیں
ان امور کا تعلق چاہے تعلیم سے ہویا اقتصادسے ، سیاست سے ہو یا تجارت
سے،معاملات سے ہو یا اخلاق سے سب کا دار
ومدار اُصول ہی پر ہے۔ اگرسماج اُصول و ضوابط
کا پابند نہ ہو تو ہر طرف بدنظمی ،بدامنی ،اورلاقانونیت کا بول بالا نظر
آئے اورآخر کار نظام حیات درہم برہم اور تباہ و بربادہوجائے۔ علیم و خبیر پروردگار عالم
نے اس کائنات کا نظام بھی کچھ اُصولوں پرقائم و استوار کیا ہے اور ہر ذی نفس کو ان ہی کی تابع قرار دیا لہٰذا انسان فطرتاً اُصول پسند واقع ہوا ہے۔
المختصر ہر اہم کام کے لیے اُصول کا ہونا لازمی ہے تو
پھر حصول علم جیسے مہم و لازمی شئی کے لیے
کوئی اُصول نہ ہوں یہ تو ممکن نہیں ۔حصول و تحصیل علم سے پہلےچند مقدمات
اُصول ہیں جن کا جاننا اور اس پر عمل کرنا ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ اگر طالب
علم ان اُصولوں کی پابندی کرے تو حصول علم میں یہ باتیں نہ صرف آسانی کا باعث بنیں گی بلکہ ترقی و رُشد کا سبب بھی قرار پائیں گی ۔ یوں تو مذکورہ موضوع پر کئی نکات
قلم بند کیے جاسکتے ہیں مگر اختصار کے پیش نظر یہاں صرف پانچ اہم اُصول و ضوابط
کو ضبط تحریر کیا جا رہا ہے ۔ مضمون کا آخری حصہ
مزید تشریحات کا متقاضی ہے اگر توفیق شامل حال رہی تو آئندہ کسی اور موقع پر اس پر
روشنی ڈالی جائے گی۔
پہلا اصول
ایک طلب علم
کے لیے ضروری ہے کہ وہ منظم رہے۔اس کے ہر روز کا پروگرام مرتب شدہ ہو۔یعنی
کس وقت کیا کام کرنا ہے پہلے ہی سے طے رہے۔سونےاورصبح بیدار ہونے کاوقت، تحصیل علم
اور دیگر اہم امور کی انجام دہی کا وقت،نفع بخش کھیل،کسرت، کتب و اخبار کا مطالعہ یہاں تک کہ غذا تناول کرنے کا وقت بھی
مقرر رہے تاکہ طالب علم اپنے قیمتی اوقات
سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور اسے بے فضول ضائع نہ کرے۔
دوسرا اُصول
ایک طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مناسب نیند لے۔ہرروز کم سے کم 6 اور زیادہ
سے زیادہ 8 گھنٹے سونا صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ
وہ افراد جورات میں کم سوتے ہیں وہ دن میں سستی کا شکار رہتے ہیں۔ نیند کے غلبہ کی وجہ سے وہ اپنے کاموں کو ٹھیک طرح سے
انجام نہیں دے پاتے اور ان کا دن غصے اور چڑچڑاہٹ کی نذر ہوجاتا ہے۔نتیجاً ان کا
مظاہرہ دن بہ دن رو بہ زوال اور ناکامیوں
کی نذر ہونے لگتا ہے ۔ ان نقصانات سے پرہیز کا واحد راستہ رات میں جلد سوجانا ہے
اور کم سے کم 6 گھنٹے کی نیند لینا بہت ہی ضروری ہے۔
تیسرا اُصول
ہر کام میں بہتری اور نُدرت کے لیے
پابندی سے اس کام کو انجام دینا لازمی ہے۔مثل مشہور ہے:" مشق انسان کو ماہر
بناتی ہے"۔ایک طالب علم کےلیے یہ لازم ہے کہ وہ
مدرسہ و اسکول کو پابندی سے آئے ۔وقت
مقررہ پر حاضر رہنے کو بھی اپنے فرائض میں شمارے کرے۔بلا وجہ غیر حاضری بے عقلی کے سوا کچھ نہیں۔بسااوقات غیر حاضری کے
سبب کوئی ایسا علمی نقصان ہوجاتا ہے کہ جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی ہے ۔خدا نہ کرے اگر کوئی طالب علم مریض و بیمار ہوجائے یا
کوئی ناگہانی صورت در پیش ہو جائے تویہ
مسئلہ دوسرا ہے۔ مجبوری کی حالت میں غیر حاضری قابل احتساب نہیں ، ان مسائل سے خود اساتذہ بھی دوچار ہوآسکتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ پابندی سے
اسکول آنے والے بچوں کا مظاہرہ یقیناً ان طلبا سے بہتر گا جواکثر غیرحاضر رہتے ہیں۔طالب علم اپنے لیے پابندی سے اسکول آنا لازمی قرار دے ۔
چوتھا اُصول
طالب علم کو چاہیے کہ وہ با ادب رہے۔ وہ اپنے لیے ادب کو فرض و واجب کرلے ۔ کہتے ہیں :کہاوت ہے"باادب
بانصیب ،بے ادب بے نصیب"۔یہ بات صد فی صد درست اور صحیح ہے کہ جو بچے باادب
ہوتے ہیں وہ بڑے قسمت والے ہوتے ہیں۔باادب ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلبہ اپنے تمام معلمین و معلمات کی عزت اور ان
کااحترام کریں۔یہ کوشش رہے کہ
اساتذہ کو اپنی کسی بات سے اور اپنے کسی کام سے
تکلیف نہ پہچائے ۔ ہمیشہ ایسے کام
انجام دیں جو انھیں خوش اور شاد کریں۔ اساتذہ روحانی ماں باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔جس
طرح والدین اپنے بچوں کی رُشد و ترقی کے خواہا ں ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے اچھے
اساتذہ اپنے شاگردوں کی ترقی اور پیش رفت کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ استاد کے ادب و احترام سے طلبا کی ترقی کا کیا
تعلق ہے؟ اس کا جواب روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جن افراد کا ہم
احترام نہیں کرتے ان کی باتوں پر بھی توجہ نہیں دیتےاور نہ ان سے کوئی چیز سیکھنے کی کوشش
کرتے ہیں ۔اس کے بر عکس جن اشخاص کا ہم احترام کرتے ہیں ان کی باتیں بڑے ہی توجہ
کے ساتھ سماعت کرتے ہیں اور محترم افراد سے
سیکھنے میں ہمیں خوشی بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ ادب و
احترام دوطرفہ ہو نا چاہیے یعنی جس طرح بچے اپنے استاد کی عزت کرتے ہیں ویسی ہی استاد
بھی اپنے شاگردوں کاادب و احترام کرےاور ان سے مہربانی،شفقت اور محبت سے پیش آئے۔
پانچواں اُصول
توجہ۔پڑھائی اوردرس و تدریس کے وقت طالب علم استاد کی باتوں کو توجہ کے ساتھ
سنے۔بغیر توجہ کوئی بھی کام ثمر آور اور فائدہ مند نہیں ہوتا۔ جب توجہ کی بات آتی ہے تو ایک بڑی تعداد اس سے
محروم نظر آتی ہے۔ توجہ کی کمی یا عدم توجہ کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں ان میں چند
یہ ہیں: مضمون سے عدم دلچسپی،نیند کی کمی،بھوکے رہنا،یا پھرضرورت سے زیادہ کھانا،سبق
کے دوران آپس میں گفتگو اور باتیں کرنا،سبق کو بے اہمیت یا کم اہمیت سمجھنا،ٹی،وی
خاص کر کارٹون زیادہ دیکھنا، زیادہ ویڈیو گیمز کھیلنا،اسمارٹ فون اور شوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال وغیرہ وغیرہ۔
توجہ بڑھانے کے لیے کیا کریں؟
توجہ بڑھانے کے لیے طالب علم مضمون کے بارے معلومات
حاصل کرے۔ مضمون کی اہمیت اور اس کے فوائد جانے۔اوراستاد کی مدد سے مضمون کو دلچسپ
بنانے کی کوشش کریں تاکہ شوق پیدا ہوسکے۔رات میں جلدسوجائے تاکہ صبح تازہ دم اسکول
آسکے۔طالب علم کو چاہیے کہ صبح ہلکا مگر صحت سے بھرپور ناشتہ کرے۔یہ بھی یاد رہے
کہ ضرورت سے زیادہ نہ کھائے کیو ں کہ اس
سے بھی توجہ میں کمی ہوتی ہے۔جماعت میں سبق کے دوران آپس میں باتیں اورگفتگو نہ کرے
تاکہ پوری توجہ سے سبق پڑھ اور سمجھ سکے۔ٹی،وی کم سے کم دیکھے۔ایک گھنٹے سے زیادہ
ہرگز نہ دیکھے۔ویڈیو گیمز کے بجائے وہ
دماغی اور جسمانی کھیل کھیلے جو گھر یا باہر آسانی سے کھیلےجا سکتے ہیں۔اس طرح صحت بھی اچھی رہے گی۔اسمارٹ فون اور شوشل میڈیا
کا استعمال ضرورت کے علاوہ نہ کرے۔اس کے بجائے مفید کتابیں ،رسائل اوراخبار پڑھے۔توجہ
بڑھانے کے لیے کسرت اور یوگا کرے خاص کر مراقبہ ۔یعنی ابتداءمیں 30 سکنڈ اپنے اندر
کوئی خیال آنے نہ دے۔اور اس مشق کے وقفہ کو آہستہ آہستہ بڑھائے۔اس طرح ان اُصول پر عمل کرکےآپ
ایک اچھےاور مثالی طلب علم بن سکتے ہیں۔
4 Comments
excellent sir these are valuable principles for every student.
ReplyDeleteہمت افزائی کے لیے شکریہ۔
Deletethank you very much for these very useful principles for a student.
ReplyDeleteہمت افزائی کے لیے شکریہ۔
Delete